جرمنی ۔ مدرسوں کی فرقہ پرستی کو سرکاری سرپرستی کیوں
تحریر: دانیال رضا | |||
[چنگاری ڈاٹ کام](http://chingaree.com/detailarticle.php?id=311) | |||
نوٹمندرجہ بالا جرمن کے نیشنل اخبار میں اس نیوز کے بعد مجھے جرمنی سمیت تقریبا تمام یورپ سے بے شمار فونز ، ای میلز اور ایس ایم ایس آئیں جن میں کئی پیارو محبت سے دھمکیاں تھیں اور دبانے کی[![](http://www.qern.org/wp-content/uploads/sites/3/2012/12/german-paper-300x198.jpg "german-paper")](http://www.qern.org/wp-content/uploads/sites/3/2012/12/german-paper.jpg)کوشیشیں تھیں اور کہیں اس کی حمائت تھی ۔ کچھ چنگاری ڈاٹ کام کے چند مضامین پر چیلا رہے تھے اور کچھ آئی ایم ٹی کے تمام کام کو سراہا رہے تھے اور اپنی حمائت کا یقین دلا رہے تھے میرے پچھلے چند دن بہت دل چسب گرزارے کیونکہ جرمنی میں بائیں بازو کے کام سے تمام یورپ میں پاکستانی تارکین وطن متاثر ہو ئے ہیں ۔ یہاں کی کچھ قیادتیں بہت خوش ہیں اور کچھ بالکل نہیں چند کی حاکمیت کو چیلنچ ہو گیا ہے اور وہ سیاسی پردہ سکرین سے چلے گئے ہیں یا جانے والے ہیں اور کچھ نئے سامنے آگئے ہیں لیکن یہ مارکسسٹوں کی پرانی تاریخ ہے کہ انہوں نے ہر چیلنج کو ہمیشہ خوش آمدید کہا ہے لیکن یورپ میں پاکستانی محنت کش وہ کسی سیاسی پارٹی یا کسی جماعت سے ہوں انقلابی کام پر خوش ہیں لیکن قیادتیں وہ سیاسی ہوں یا مذہبی ناراض ہیں جو ہمارے عوامی کام کی حقیقی جیت ہے۔اوپر بطور فوٹو جرمن اخبار ،، نوئے دوچ لینڈ ،، کی خبر ہے۔ سترہ دسمبر کو جرمنی کی ریاست ہیسن کے شہر ریڈشٹاڈ جو فرینکفرٹ کے قریب ہی واقع ہے میں جماعت احمدیہ کے وسطی یورپ میں پہلے اور بڑے مدرسے کا افتتاح ہوا جس میں مقامی ریاست کے حکمران پارٹی ایس پی ڈی اور ایف ڈی پی کے وزیروں نے شرکت کی اورجماعت احمدیت کو سراہا وغیرہ۔ اس مذہبی مدرسے میں احمدی جماعت اپنے امام یا مربعی تیار کرئے گئی یعنی یہاں احمدی نوجوانوں کو احمدیت کی مکمل تعلیم و تربیت دی جائے گئی جس کے بعد ان تیار شدہ مربعی صاحبان کو تمام دنیا میں احمدی مذہب کی تبلغ کے لیے بھجا جائے گا ۔ اور اس کے آگے ہی چنگاری فورم جرمنی اور ڈی لنکے پارٹی کے رہنما دانیال رضا کا اس مذہبی مدرسے کی سرکاری سرپرستی کے خلاف سخت بیان ہے کہ وہ مذہبی فرقہ پرور مدرسوں کی سیاست کی مکمل مذمت کرتے ہیں جو فرقہ واریت اور تعصب کو ہوا دینے ہیں یہ غیر جمہوری اور بنیاد پرستی کی روایات کو ابھارناہے جو ناقابل قبول ہے ۔ جماعت احمدیہ کا یہ مدرسہ غریب اور محنت کش احمدیوں کی خون پسنے کی کمانی کو نچوڑ کر احمدیت کی فرقہ واریت کو پھیلنے کے لیے بنایا گیا ہے یہ سرمایہ معصوم احمدیوں پر مختلف خاندانی ، ذاتی اور سماجی دباو سے مجبور کر کے چندہ کی شکل میں حاصل کیا جاتا ہے ۔ہم ہر مذہب کی شخصی آزدی کے حمائتی ضرور ہیں لیکن کسی بھی مذہب کی سرکاری سر پرستی کو مکمل مسترد کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مارکسسٹ ہمیشہ شخصی آزادیوں کے جہاں سب سے زیادہ طرف دار ہیں وہیں پر ذاتی اور شاونسٹ معملات کی سماج میں مداخلت کے مکمل مخالف بھی ہیں ۔ کیونکہ ذات اور سماج کے درمیان صرف گھر کا ایک دروازہ ہوتا ہے جب کوئی شخص اپنے گھر کے دروازے سے باہر آتا ہے ، اسکی آواز یاپھر اس کے گھر میں کیے گئے اعمال کے اثرات جب گھر کی چوکھٹ کراس کرتے ہیں تو پھر یہ ذات سے بلند ہو کر سماج کے پابند ہو جاتے ہیں ۔ جہاں انکو ذاتی نہیں بلکہ سماجی حقوق و فرائض کا لازمی پابند ہونا چاہیے۔ عمومی طور پر پسماندہ اور خصوصی طور پر رجعتی اور مذہبی افراد گروہ ،تنظمیں اور جماعتیں ذات اور سماج کو آپس میں مکس ہی نہیں کرتے بلکہ ذات کو سماج پر فوقیت دے کر سماجی جرائم کے مرتکب ہو تے ہیں ۔ یہ سماج سے زیادہ ذات کو بلند کرنے کی بات کرتے ہیں اس لیے یہ لوگوں کے انفرادی معملات اور انکے درمیان ذاتی تعلقات میں سب سے زیادہ شدید ترین مداخلت کرتے ہیں یہاں تک کے میاں بیوی کے رشتے اور بال بچوں تک میں مداخلت کرتے ہیں۔ اس سے جہاں یہ انسانوں کی ذاتی زندگیوں کو عذاب بنا دیتے ہیں وہاں یہ منافرتوں اور سماجی خلفشار کی آگ کو بھی بھڑکتے ہیں ۔ جو نہ صرف ایک ذہنی بلکہ خطرناک سماجی بیماری ہے بلکہ معاشرتی تباہ وبربادی بھی ہے ۔ لوگوں کی ذاتیات میں مداخلت شعور اور سوچ کی پستگی کا بلند ترین اظہار ہے ۔ تمام مذہبی اور فرقہ وارانہ جماعتوں کا وجود اس کا ثبوت ہے کہ اس زمینی کرہ ارض سے ابھی تک مکمل جہالت اور وحشت کا خاتمہ نہیں ہوا ۔ تمام مذاہب کا تعلق اور انکے فرائض کی ادائیگی ہر شخص کا آزادانہ مکمل نجی معاملہ ہے ۔کہ اسکا کون سا مذہب ہے کون سا فرقہ ہے اس کا مذہب ہے بھی کہ نہیں ہے ۔کسی دوسرے شخص اور سماج کو اس سے قطعی کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی اس میں کسی کو ٹانگ آڑانے کی اجازت ہو نی چاہیے ۔ کیونکہ انسانی سماج کو ضرورت سائنس اور ٹیکنیک کی ہے جو سماجی ترقی اور انسانوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے ۔ ہمیں وافر مقدار اور تعداد میں میں انجینئرز ، ڈاکٹرز ، سائنسدان ، جدید سکول، کالج ، یونیورسٹیاں ،ہسپتال ، صاف اور صحت مند خواراک ، جدید اور ترقی یافتہ سماجی ڈھانچہ ، پیارو محبت دوستی ، بلا غرض رشتے ، بلند اور معیاری ادب وفن اور ثقافت اور خوشحال انسانوں کی ضرورت ہے نا کہ نفرت ، تعصب ، اور تباہی پھیلانے والے مذہبی اداروں کی۔ حقیقی انسانی آزادی اور خودمختیاری صرف اور صرف تمام شاونزم کی نفرتوں سے بالا اور غیر طبقاتی سماج میں ہی حاصل ہو سکتی ہے ۔تعصبات اور فرقہ واریت پر مبنی گروہ ، تنظمیں اور جماعتیں ہر ترقی میں ناقابل برداشت روکاوٹیں ہیں جن کو گرائے بغیر کسی شخصی اور معاشرتی ارتقا کو آگے نہیں بڑھا جا سکتا ۔ ناکام اور فرسودہ سوچیں ، نظریات ، جماعتیں اور نظام جب کسی بھی سماجی ترقی و ارتقا کا باعث بنے سے قاصر ہو جاتے ہیں تو پھر یہ اس میں روکاوٹیں ڈالتے ہیں جدید سماجوں کو ماضی کی وحشت اور بربریت میں دھکیلنے کی کوشیش کرتے ہیں ۔ جس سے یہ سماجیات کا نصاب بند کر دیتے ہیں ذاتیات ، تعصبات اور فرقہ واریت کی تلاوت کرنا اور کروانا شروع کر دیتے ہیں ۔ تاکہ عوام سماجی زخموں کے درد بھول جائیں اور کسی روحانی یا جعلی نشے میں بدمست ہر سماجی اذیت اور دکھ کو سی کیے بغیر برداشت کر لیں ۔ یہ ظلم اور سفاقی نہیں تو اور کیا ہے ۔ جو موجودہ نظام اسکے حکمرانوں اور انکے رکھوالوں کی مقدس کتاب کے بنیادی اصول ہیں ۔ عالمی جدید ترین ترقی کی بنیادوں میں دنیا کی بڑے اور عظیم ترین پادریوں اور ملاوں کے خونی قبرستان دفن ہیں اور آج جب یہی جمہوریت اور امن کے دیوتا یورپ کی مزید سماجی ترقی سے معذرت خواہ ہی نہیں ہیں بلکہ ماضی والی ترقی اور انسانی معیار زندگی کو قائم رکھنے کی اہلیت بھی کھو چکے ہیں تو یہ ماضی کے خداوں کو اپنی بقا کے لیے قبروں سے اکھاڑ لائے ہیں عوام کو ان ماضی کے مزاروں کی پرستیش پر مجبور کرتے ہیں ۔ ملاوں کی سرکاری سر پر ستی کا یہی ایک مطلب ہے ۔ جب سرمایہ دارانہ یورپی یونین کی بربادی کا آغاز یونان بن چکا ہے جس کے پیچھے نہ ختم ہونے والی لائن بھی لگ چکی ہے تو یہ عوا م کے خلاف اپنے مالیاتی ظلم و استحصال کے حمائتی ، ہمدرد اور گماشتوں کو حکومتی اور ریاستی تحفظ دے رہے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں ۔ موجودہ حکمرانوں کے وفاداروں میں یقیناًسر فہرست فرقہ پرست اور منافرتوں کے بھگوان ہی ہیں ۔جو استحصالی طاقتوں کے خلاف عوامی نفرت کو خدا کے نام پر دباتے ہیں اور اسکا رخ اصل سماجی ، معاشی مسائل سے غیر حقیقی اور فروہی مسائل کی طرف مبذول کرتے ہیں انکو جنت اور دوزخ کے کورکھ دھندے میں الجھا کر پریشان اور منتشر کرتے ہیں۔ مذہب اپنے آخیر تجزیے میں جنت کا کاروبار ہے جسکی بنیاد موت کے خوف پر ہے ۔ جوعوامی اتحاد اور طبقاتی جدوجہد کے لیے زہر قاتل ہے جو ظلم کی فتح ہے اور یہ فرقہ پرست خدا ، پیغمبروں اور خلیفوں کے نام پر ظلم کے سب سے بڑے درباری اور بیوباری ہیں ۔ امریکہ اور یورپی حکمرانوں نے ہی چند دہائیوں قبل پاکستان اور افغانستان میں مذہبی فرقہ پرستوں کے اپنے سامراجی مفادات کے لیے مدرسے بنائے تھے اور انکو مضبوط کیا اور انکی مکمل سرپرستی کی ۔ لیکن جب تک یہ طالبان ، القاعدہ، وغیرہ کمزور تھے بڑے اطاعت گزار اور فرمابردار تھے ۔لیکن انہوں نے تب سامراج کے لیے اور آج نام نہاد اسلام کے لیے دونوں ملکوں کو خون میں ڈبو دیا ہے ۔ یہ انسانی سماج کے دوست نہیں اس کے دشمن ہیں کیونکہ یہ نفرتوں اور جہالتوں کے پالے ہیں۔ یہ جہاں بھی گئے جس نام سے بھی گئے انہوں نے زندہ سماجوں کو اجاڑ کر خاکستر کر دیا ۔ یہی انکا ماضی ہے یہی حال اور یہی مستقبل ہے ۔ غزہ میں حماس بھی اسرائیل اور امریکہ کی ہی پیداوار ہے ۔ یہ تمام فرقہ پر ست جیتے بھی معصوم اور شریف نظر آئیں انکی حقیقت طاقت ور اور مضبوط ہونے پر نظر آتی ہے چودہ سو سال سے قبل آج تک انکا ماضی انکی گواہی ہے ۔ ہٹلر نسلی فرقہ پرست تھا اس کی خونی انسانی تاریخ کھبی خاموش نہیں رہے گئی ۔ انقلاب ایران کی قتل گری ہمیشہ تاریخ میں خون کے آنسو بہاتی رہے گئی ۔ ضیا آمریت کے دور میں جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کی بھیانک فرقہ وارانہ قتل وغارت تاریخ میں ان مٹ رقم ہے ۔انڈین گجرات میں ہندو فرقہ پرستی کی جنونیت سے بہنے والا بے گناہ انسانی لہو آج بھی انصاف کا طلب گار ہے ۔ حالیہ سندھ میں ہندو وں کے خلاف اسلامی فرقہ واریت کی زیادتیاں انسانی حدوں کو پھلانگ چکی ہیں۔ طالبان اور القاعدہ کی فرقہ واریت کے جنون کاخونی بازار ابھی گرم ہے آج تمام دنیا میں مختلف مذاہب پر قائم سینکڑوں فاشسٹ رجحانات کی حامل تنظیمیں زندہ انسانوں کو آپس میں کاٹنے ، نفرتوں کو بڑھانے ، مالیاتی جبر کو قائم رکھنے ، اور اپنی دوکانداریاں چمکنے کے علاوہ انکا کوئی مقصد اور منشور نہیں ہے ۔یہ تمام فرقہ پرست تنظمیں طبقاتی ظلم و جبر کے دیوتاوں کی داشتائیں ہیں۔ منڈی کے نظام میں ہر دوکانداری وہ انسانی ہو یا غیر انسانی عزت و احترام کے قابل ہے اور اسکا بڑا مقدس مقام ہے ۔اسی لیے تو آج دنیا کا اسی فیصد سرمایہ سیکس کی منڈی سے حاصل ہوتا ہے اور یہ یہاں جائز ہے جس پر یورپ میں باقاعدہ ٹیکس عائد ہو تا ہے اور بے روزگار ہونے کی صورت میں بے روگاری الاونس بھی دیا جاتا ہے ۔ سرمایہ داری میں آج ایک نیا ابھرتا اور بڑا نفع بخش کاروبار عام ہو رہا ہے چائلڈ سیکس اس پر لکھنے کی میرے قلم میں طاقت اور سکت نہیں لیکن موجودہ مالیاتی نظام میں یہ بہت فائدہ مند کاروبار ہے اورخوب ترقی کر رہا ہے ۔ آج جب عالمی منڈی میں قوت خرید کے گرنے سے سرد بازاری ہے ۔ تو جذبات احساسات اور مقدس رشتوں کا کاروبار چمک اٹھا ہے ۔جسم فروشی ، ضمیر فروشی اور مذہب فروشی کا دھندہ اپنے عروج پر ہے ۔ اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ موجودہ نظام کے حکمر ان ان نفع آوار دھندوں کو خوش آمدید نہ کہیں اور انکو لمبی عمر کا آشی باد یا دعا نہ دیں ۔ اسی لیے تو یہ ان مذہبی بیوپاریوں کی سرکاری سرپرستی میں پیش پیش ہیں ۔ جماعت اسلامی ، منہاج القران اور جماعت احمدیہ کی مرکزی قیادتیں یورپ میں عالمی حکمرانوں سے کم عیاشیوں کی زندگی نہیں گزار رہے جبکہ یہ عوام کو قناعت ، صبر ، امتحان اور مرنے کے بعد سرخرو ہونے کے جعلی اور سطحی الفاظی سے غربت کی ذلت آمیز زندگی سے بدتر موت گزارنے کی ترغیب دیتے ہیں ۔ یورپ میں بھی ان مذہبی جماعتوں کے عام ممبر محروموں اور غلاموں جیسی زندگی گزار رہے ہیں ۔ ادھار لے کر اپنی بیویوں کے زیور بیچ کر بچوں کی خواراک اور انکی تعلیم وتربیت کے پیسے ان پیٹ خور مذہبی قیادتوں اور تنظیموں کو دیتے ہیں ۔ جماعت احمدیہ جو پاکستان میں ایک مذہبی اقلیت کا درجہ رکھتی ۔ ملک سے باہر اپنی مذہبی سرگرمیوں میں سرگرم ہے ۔ کسی بھی سماج میں چندلوگوں کو کسی بھی بنیاد پر اقلیت کا درجہ دینا انسانی سماج کی توہین ہے اور خاص طور پر مذہنی ،جنسی، علاقائی یا کسی بھی تعصب پر عوامی تفریق مجرمانہ فعل ہے ۔ پاکستان میں بڑھتی جنونیت اور قتل و غارت میں انہی آئینی شاونسٹ قوانین کا بڑا عمل دخل ہے جو مذہبی منافرات کو بھڑکتے ہیں ۔ جرمنی میں جماعت احمدیہ کے اس نئے مدرسے میں امام یا مربعی بنائے جائیں گئے اور مربعی وہ ہو تا ہے جس کو اس کے والدین پیدائش سے پہلے ہی جماعت کے لیے واقف کر دیتے ہیں ۔ پھر پیدائش سے ہی اس پر جماعت کا حق ہو تا ہے اس کو خاص سخت جماعتی ماحول میں مذہبی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے اور بالغ ہونے پر ان کو جماعت احمدیہ کے مدرسوں میں جمع کروا دیا جاتا ہے اور پھر یہ تمام زندگی جماعت کی دن رات خدمت کر کے چندوں اور خیرات پر زندگی گزارتا ہے ۔ جماعت احمدیہ میں بچوں کے ساتھ یہ زیادتی کا عمل آج یورپ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی جاری ہے ۔ جہاں بچوں کی مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا جاتا ۔اسے آزادانہ اور خود مختار ماحول قانونی طور پر دیا جانا چاہیے تا کہ بچوں میں خود اعتمادی پیدا ہو اسکے انکی صلاحیتیں نکھریں اسکی شخصیت مضبوط ہو اور زندگی میں یہ اپنے فیصلے خود کرنے کے قابل ہو سکے لیکن جماعت احمدیہ کے مربعیوں میں ایسی کوئی بات نہیں ہوتی بلکہ ان کی پروش سماجی صحت مند اصولوں کے خلاف بیمار ماحول میں ہوتی ہے جس سے یہ ذ ہنی طور پر لاغر اور محکوم ہوتے ہیں ایک طالبان اور مربعی میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے ایک ہی سکے کے دو روخ ہیں طالبان کو حملہ آورانہ تربیت دی جاتی ہے جبکہ ایک مربعی کو پسپائی کی لیکن مذہبی جنونیت دونوں میں برابر ہے ۔ جس کو ہر ذی شعور شخص مسترد کرتا ہے ۔ تمام مذہبی جماعتوں میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں ہے صرف طریقہ کار اور انداز کا فرق ہے ۔ جماعت احمدیہ کا طریقہ کار ہاتھی جیسے ہے جس کے کھانے کے دانت اور ہیں اور دیکھنے کے اور ہیں ۔ اسی وجہ سے انہوں نے یورپی حکمرانوں کے دل میں اپنی اطاعت گزاری اور غلامی سے جگہ بنائی ہے دوسری یہ یورپ میں مذہبی سرمایہ کاری کی ایک بڑی اجارہ داری ہے جسے کے پاس احمدیہ محنت کشوں سے ہتھایا گیا بڑا موٹا سرمایہ ہے ۔ جماعت احمدیہ کی قیادت پاکستان میں اقلیت قرار دئیے جانے کو یورپ اور مغرب میں خوب بیچ رہی ہے ۔ اپنے ممبران کو یہاں سیاسی پناہ دلوا کر ان پر بے شمار قسم کے چندے زبردستی اور سماجی دباو سے عائد کرکے لوٹا جاتا ہے ۔ ہیں جن کو یہ رضا کارانہ کہتے ہیں ۔ چندہ نہ دینے والے ممبران کی خوب ہر جگہ تذلیل کی جاتی ہے ۔ان سے اپنے اجلاسوں عبادتوں اور شادی بیاہ تک کی تقریبات میں اچھوتوں جیسا رویہ رکھا جاتا ہے ۔بہت ساروں کوجماعت سے بھی نکل دیا جاتا ہے نظام جماعت سے اخراج کے بعد اس سے سوشل بائیکاٹ کیا جاتا ہے اسکے بھائیوں بہنوں دوستوں ، بیوی اور بچوں تک کو اس سے ملنے کی اجازت نہیں ہوتی ورنہ انکو بھی جماعت سے نکل دیا جاتا ہے ۔ نظام جماعت سے نکلنے کا خوف احمدیہ جماعت میں خدا کے عذاب سے بڑا خوف ہے ۔ جماعت میں اموار عامہ خفیہ پولیس کا ادارہ ہے جو براہ راست مرکزی قیادت کے انڈر ہے جس کے افراد کا کسی عام احمدی کو علم نہیں ہوتا اور یہ اموار عامہ کا ادارہ مرکزی قیادت کے بعد سب سے زیادہ اختیارات اور طاقت رکھتاہے ۔جماعت کی اپنی باقاعدہ مقامی۔ قومی اور عالمی عدالتیں ہیں جن کے احکام کی پاسداری ہر احمدی کا اول فریضہ ہے اور وہ اپنے تمام مسائل اور لڑائی جھگڑے کے کیس اسی میں پیش کرتا ہے ۔جماعت احمدیہ میں کوئی ممبر بھی غیر جماعت سے جماعت ، مذہب ، تضادات پر کسی قسم کی بات نہیں کرسکتا ۔ میڈیے میں خاص طور پر نہیں جاسکتا اور نہ ہی کسی مسئلے پر اپنی رائے کا اظہار کر سکتا ہے ۔جماعت احمدیہ نے اپنے ہر شعبے کے لیے لوگ مخصوص کر رکھے ہیں جنکو تمام اختیارات حاصل ہوتے ہیں اور وہی جماعت کا ہر مسئلے پر نقطہ نظر پیش کرتے ہیں ۔ باقاعدگی سے چندے دینے والے اور زیادہ چندے دینے والوں کو جماعت کے عہدوں پر فائز کیا جاتا ہے ۔مرکزی قیادت کو ہر شعبے میں مکمل مداخلت اور فیصلہ کن رائے کا حق حاصل ہے ۔تمام جماعت کے ممبران کے لیے جماعت کا ہر حکم لازمی اور ضروری ہے جس کی خلاف ورزی کی جماعت میں قطعی کو ئی گنجائش نہیں ہے ۔ اسی بنیادو پر جماعت احمدیہ کو دوسری مذہنی جماعتوں کی طرح ایک ریاست کے اندر ریاست اور ایک فاشسٹ جماعت کہا جاتا ہے جسکے سیاہ آمرانہ قوانین ہیں ۔ جس طرح جماعت اسلامی یا ایم کیو ایم ہیں ۔ جماعت احمدیہ جو اسلام کو ماڈران بنانے کے چکر میں ایک نئی فرسودگی، بے بہودگی اور فاشزم کو ابھاررہی ہیں ۔ جماعت کے ہاتھوں ستائے اور ڈسے ہوئے کئی افراد مجھے سے مسلسل رابطہ کرتے ہیں اور تمام انفارمیشن دیتے ہیں یہ ذاتی نوعیت کی معملات کو میں زیر بحث نہیں لانا چاہتا وگر نہ بات بہت آگے تک نکل جائے گئی اور مرکزی قیادت کے گریبان تک ہاتھ پہنچ جائے گا جبکہ ہمارا مقصد ظلم و زیادتی اور ناانصافی کو بے نقاب کرنا اور اس کے خلاف مذاحمت ہے محنت کش عوام کو فرقہ واریت کے جنون اور خون سے باہر نکلنا اور ان میں طبقاتی اتحاد پیدا کرکے مقامی اور عالمی استحصال کے خلاف ایک فیصلہ کن طاقت بنا ہے اور اس زمینی کرہ ارض پر بسنے والے انسانوں کو خوشحال ، پر امن ، آزاد اور خود مختیار بنا ناہے تاکہ انسان اپنے جنم کے اصل مقصد تسخیر کائنات کی طرف بڑھ سکے ۔ جماعت احمدیہ کے اندر فاشسٹ رجحان اور ملوکیت کو سمجھنے کے لیے چند ماہ قبل میرے سے اے کے شیخ صاحب نے رابطہ کیا جو کسی دور میں جماعت کی مرکزی قیادت کے بہت قریب تھے ۔ آج کل یہ اپنی ویب سائٹ اور یو ٹیوب پر بڑے منطقی انداز میں جماعت احمدیہ کے جرائم کو بے نقاب کر رہے ہیں حال ہی میں جماعت احمدیہ کے ایکس عظیم قائدین کی لکھی کتاب رابوہ کا راسپوٹین پڑھنے کو ملی جس کا مطالعہ ہر احمدی کو کرنا چاہیے ۔ جس کے کے آخر میں جماعت کے ڈھانچے کو پڑھنے اور سمجھنے کا موقع ملا اس کے علاوہ عبدل غفار جمبہ جو پہلے مرکزی قیادت کی آنکھ کا تارے تھے اب وہ ان سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے بھی ایک دعوا کر دیا ہے کیونکہ جماعت کے نظریے میں اس کی بہت گنجائش ہے لیکن مرکزی قیادت کی آمریت میں اسکی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ ان سے قریبی تعلقات بھی رہے جو جماعت کی مرکزی قیادت کے پول کھل رہے ہیں۔ جس سے مجھے جماعت کے بارے میں کافی علم ہوا پچھلے ماہ ایک مخلص احمدی نے ایک کتاب جس کا نام ،، الہام ، عقل ، علم اور سچائی ہے پڑھنے کو دی یہ کتاب نہ پڑھنے کے باوجود اس لیے پڑھ رہا ہوں کہ مجھے ایک پروگرام میں بہت سے افراد کے سامنے یہ کتاب دی گئی اور کہا گیا کہ میں یہ پڑھ کر احمدیت کی سچائی پر ایمان لے آوں گا اس کا پہلا سبق ،، تعارف تاریخی تناظر میں ،، پڑھا ہے جس پر جلد اپنا مارکسی نقطہ نظر لکھ کر پیش کروں گا ۔ جماعت احمدیہ کی سماجی اور افرادی کمزوری کا بر ملا اظہار اس سے بھی ہو تا ہے کہ اس کی مرکزی قیادت کا ایک بڑا نعرہ ہے کہ حکمرانوں کے وفادار رہو ویسے تو تمام مذہبی جماعتوں کا آف دی ریکارڈ یہی ایمان ہے لیکن وہ اپنی کچھ ریاستی اداروں میں طاقت کی بنا پر حکمرانوں کی لوٹ میں زیادہ حصہ لینے کے لیے انہیں بلیک میل بھی کرتے ہیں ۔ لیکن جماعت احمدیہ میں یہ صلاحیت ا بھی نہیں ہے اس لیے اس کا کھلے عام نعرہ ہے حکمرانو ں پر ایمان لے آو اور ان سے وفادار رہو ۔لیکن پاکستانی حکمرانوں کے متعلق ان کا متضاد نعرہ ہے ۔ حکمرانوں کی گماشتگی عوام دشمنی اور ظلم عظیم ہے ۔ کیو نکہ اگر ہم ہر حکمران کے وفادار ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم انکی ہر ظلم و زیادتی کے حصہ دار ہیں۔ اس میں شریک جرم ہیں اور ان کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ عراق ، افغانستان ، پاکستان ، انڈونیشا ، سری لنکا ، ویت نام ، فلسطین ، رونڈا، لیبا، شام ، افریقہ ، غرض تمام دنیا میں ہونے والی مقامی اور عالمی حکمرانوں کی عوامی قتل و غارت ، جنگیں ، قبضے ، ظلم و جبر ، لوٹ مار ، کو جائز قراد دینا اور اس پر عین ایمان لانا ہے یعنی بش بھی ٹھیک تھا اور صدام بھی ، اسرائیل بھی سچا ہے اور حماس بھی ۔ صدر مورسی بھی قابل اطاعت ہے لیکن عوام قابل سزا۔ احمدی جماعت کی قیادت اس حوالے سے بہت سچی ہے کیونکہ کم از کم یہ اپنی اس عوام دشمن اور ظلم حکمرانوں کا مکمل ساتھ دینے کو مانتے تو ہیں باقی مذہبی حکمران بھی ایسے ہی ہیں صرف مانتے نہیں ہیں ۔ |