اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
جب کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو کافر کہتا ہے، تو وہ لازماً اُس کو مرتد کہتا ہے، اور تکفیری سوچ رکھنے والے اگر مرتد کو واجب القتل کہیں اور ملک کے قانون کی قدر نہ کریں تو پھر ہر ایک کا خون ہر دوسرے پر جائز ہے۔ اس حالت کو کوئی ذی شعور انسان انسانیت نہیں کہہ سکتا۔ نام نہاد علماء نے جن آیاتِ کریمہ اور احادیثِ مبارکہ کو قرطاسِ بازاری کی طرح دو ٹکوں کے عوض بیچنا شروع کر دیا۔ وہی آیاتِ کریمہ اور احادیثِ مبارکہ اُن کو مجرم ٹھہرا کر شرمندہ کر رہی ہیں۔ ابھی بھی وقت ہے کہ علمائے حق بندوق سے خوف نہ کھائیں اور زبانیں کھولیں۔ یہ الفاظ ‘فتنہ ، کافر، فتنہ، کافر’ نکالتے نکالتے ان کی زبانیں تھکتی نہیں۔ پاکستان کے حوالہ سے فتنہ در اصل معصوم عوام کو قانون سے بغاوت کرنے کی تعلیم ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک ملک کا قانون اور ایک مذہب کا قانون ہے۔ یہ سوچ غلط ہے۔ ہزاروں سال کی تاریخ ہم پر ہنس رہی ہے کہ جو تاریخ سے سبق نہیں سیکھتا وہ تاریخ کو دہرانے پر مجبور ہوتا ہے۔ کسی بھی ریاست میں قانون ایک ہی ہوتا ہے، اگر ایک قانون کا نفاذ نہ رہے تو فتنہ ہوتا ہے۔
جب رات کا اندھیرے کی گہرائی میں کچھ دکھائی نہ دے تو سحر کی کرن کی نوید ہوتی ہے۔ کوئٹہ کی بے بس عوام آج وہی کرن ہیں۔ آج یہ عوام ان مذہب کے بیوپاریوں اور جمہوری کٹھ پتلیوں سے تنگ آ کر اپنی انسانیت مانگ رہے ہیں۔ کوئی دنیا کی طاقت انسان کی انسانیت کو اُس سے چھین نہیں سکتی۔ مجبور کر سکتی ہے، مگر چھین نہیں سکتی۔ وہ بیوپاری آج ننگے ہو گئے ہیں جو مکمل اسلامی نظام کی جنت کا خواب بیچ بیچ کر آج کی زندگی کو جہنم بنا رہے ہیں۔ کان کھول کر سنو اور آنکھوں سے دیکھو۔ روس نے ۸۰ سال تک کامل معاشرے کا خواب بیچا، مگر آخر ناکام اور نامراد ہوا۔ حضرتِ انسان کوئی مشین نہیں۔ ہم میں ذہانت بھی ہے تو مایوسی بھی ہے۔ ہم میں عظمت ہے تو ہوس بھی ہے۔ انسان گناہگار ہے، اور اس کو ہر وقت جرم اور گناہ سے بچنا پڑتا ہے۔ نہ تو ہمارے والدین کامل ہیں، نہ ہمارے بچے، نہ ہمارے شوہر اور بیوی، نہ ہمارے بہن بھائی، نہ ہمارے گھر اور نہ ہمارے کاروبار، ہر چیز ناقص ہے۔ مگر ہم اِس کو ہر وقت اچھے سے اچھا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ یہی امر بالمعروف ہے۔ یہی مثال ہمارے ایمان اور معاشرے کی ہے۔ چوری بھی رہے گی، زناکاری بھی رہے گی، سزائیں بھی ملتی رہیں گی۔ یہی معروف اور منکر کی جنگ ہے، جو ہمیشہ سے جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گی۔ جو بھی کامل معاشرہ کا آبِ حیات بیچتا ہے وہ آپ کا دشمن ہے۔ وہ آپ کی انسانیت کا دشمن ہے۔ خواہ وہ مرزائی خاندان ہو، کلیسائے روم ہو، آیت اللہ خمینی ہو ، یا طالبان ہو۔ ہمارے اسلامی معاشرہ کی قیمت ہماری انسانیت نہیں ہو سکتی۔ ناحق خون سے نہ تو کبھی کچھ تعمیر ہوا ہے، اور نہ ہو گا۔
انسان اپنی انسانیت نہیں چھوڑ سکتا۔ اور اہلِ حق وہی ہیں جو ظلم سے سمجھوتہ نہیں کرتے اور اصول پر قائم رہتے ہیں۔ ظلم اپنی طاقت کے نشے میں ایک دن وہ حد پار کر دیتا ہے کہ ظالم کی تمام تاویلات انسانیت کی چٹان پر ٹوٹ جاتی ہیں۔ وہی ایک کربلا ہوتا ہے، اور اسلام کو زندہ کر کے چھوڑتا ہے انشاءاللہ۔