انگریزی اخبارات میں قادیانیوں کی بے جا حمایت
ازمحمد متین خالد
(ادارہ قرن کا تمام آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں)
المیہ یہ ہے کہ پاکستان ایسی اسلامی نظریاتی مملکت میں بیشتر انگریزی اخبارات و رسائل اسلام اور نظریۂ پاکستان کے خلاف زہر اگلتے رہتے ہیں۔ آج تک ان کے خلاف حکومت یا کسی ادارہ نے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ یہ لوگ مغرب میں سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین کی غیر معمولی پذیرائی دیکھ کر ایسے مضامین لکھتے ہیں اور اس کی آڑ میں بے پناہ مراعات حاصل کرتے ہیں۔ صد حیف کہ ایسے لوگ صحافت کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔ قادیانی جماعت کے دوسرے خلیفہ مرزا محمود نے 1952ءمیں اپنی جماعت کو ہدایت کی تھی کہ ہمارا تناسب فوج میں دوسرے محکمہ جات سے بہت زیادہ ہے، لیکن پھر بھی ہمارے حقوق کی حفاظت پوری طرح سے نہیں ہوسکتی۔ اس لیے باقی محکمہ جات پولیس، ریلوے، فنانس، اکائونٹس، کسٹمز، انجینئرنگ وغیرہ تمام محکموں میں ہمارے آدمیوں کو جانا چاہیے۔ اس تحریک کو آگے پڑھاتے ہوئے 10 فروری 2006ءکو لندن کی قادیانی عبادت گاہ میں قادیانی جماعت کے پانچویں خلیفہ مرزا مسرور نے دنیا بھر کے قادیانیوں کو ہدایت کی کہ وہ صحافت کا شعبہ اپنائیں۔ اس تحریک کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے ہاں انگریزی صحافت میں زیادہ تر قادیانیوں کا غلبہ ہے جو اسلام اور پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو منہدم کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ کوئی دن خالی نہیں جاتا جب کسی نہ کسی انگریزی اخبار میں آئین میں قادیانیوں کو تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے متفقہ طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دئیے جانے والی ترمیم واپس لینے، قانون ناموس رسالت اور حدود قوانین ختم کرنے، آئین سے قراردادِ مقاصد کو کالعدم قرار دینے، پاکستان کو ایک سیکولر مملکت بنانے، ناچ گانے کو سرکاری سرپرستی دینے، دینی مدارس پر پابندی لگانے، اسرائیل کو تسلیم کرنے، ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کو قومی ہیرو قرار دینے، تعلیمی نصاب سے اسلامیات کا مضمون ختم کرنے، بسنت اور ویلنٹائن ڈے قومی سطح پر منانے، سکولوں میں فیشن شو کرنے، نیو ائیر نائٹ منانے، گھر سے بھاگ کر شادی کرنے والے لڑکے لڑکی کو قانونی تحفظ دینے، اسقاطِ حمل کی اجازت دینے، کنڈوم کلچر کو فروغ دینے، شریعت اسلامیہ کو ناقابل عمل قرار دلوانے، جہاد کو دہشت گردی قرار دینے، ہم جنس پرستی کو فروغ دینے، طوائفوں کو جنسی ورکر قرار دینے، مشترکہ خاندانی نظام کو سبوتاژ کرنے، شراب پر پابندی ہٹانے، عارضی شادی کی اجازت دینے، بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی ہٹانے، آئین پاکستان سے اسلامی دفعات ختم کرنے، صدر اور وزیر اعظم کے لیے مسلمان ہونے کی شرط ختم کرنے، مردوں کی دوسری شادی پر پابندی لگانے، پاک بھارت کرنسی ایک کرنے، ایٹمی پروگرام ختم کرنے، پاک فوج کے موٹو جہاد، تنظیم، اتحاد کو تبدیل کرنے کے بارے میں کوئی نہ کوئی سٹوری یا مضمون شائع نہ ہوا ہو۔
ان Daily Express Tribune سب سے پیش پیش ہے۔ حال ہی میں اس اخبار نے قادیانیوں کی حمایت میں یہ واویلا کیا ہے کہ قادیانی روزنامہ الفضل چناب نگر (ربوہ) کو شعائر اسلامی استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔ اخبار کا کہنا ہے کہ اگر قادیانی روزنامہ الفضل اسلامی شعائر استعمال کرے تو اس پر مقدمہ درج ہو جاتا ہے جو کہ سراسر زیادتی ہے۔ ایکسپریس ٹرائی بیون کی انتظامیہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ قادیانی اخبارات و جرائد پر شعائر اسلامی استعمال کرنے کی پابندی خود اعلیٰ عدلیہ نے لگائی ہے۔ چنانچہ قادیانیوں کی حمایت میں ان کا واویلا براہ راست توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔ سابق وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دورحکومت میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود قادیانی مسلسل شعائر اسلامی استعمال کرتے ہیں۔ غیر مسلم ہونے کے باوجود اپنی عبادت گاہ کو مسجد، مرزا قادیانی کو نبی اور رسول، مرزا قادیانی کی بیوی کو ام المومنین، مرزا قادیانی کے دوستوں کو صحابہ کرام، قادیان کو مکہ مکرمہ، ربوہ کو مدینہ، مرزا قادیانی کی باتوں کو احادیث مبارکہ، مرزا قادیانی پر اترنے والی نام نہاد وحی کو قرآن مجید اور محمد رسول اللہ سے مراد مرزا قادیانی لیتے ہیں۔ چنانچہ 26 اپریل 1984ءکو حکومت نے مسلمانوں کے پرُزور مطالبہ پر امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری کیا جس میں قادیانیوں کو شعائر اسلامی کے استعمال سے قانوناً روکا گیا۔ اس آرڈیننس کے نتیجہ میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298/B اور 298/C کے تحت کوئی قادیانی خود کو مسلمان نہیں کہلوا سکتا، اپنے مذہب کو اسلام نہیں کہہ سکتا، اپنے مذہب کی تبلیغ و تشہیر نہیں کر سکتا اور شعائر اسلامی وغیرہ استعمال نہیں کر سکتا۔ خلاف ورزی کی صورت میں وہ 3 سال قید اور جرمانہ کی سزا کا مستوجب ہوگا۔ قادیانیوں نے اپنے خلیفہ مرزا طاہر کے حکم پر آرڈیننس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پورے ملک میں شعائر اسلامی کی توہین کی اور آرڈیننس کے خلاف ایک بھرپور مہم چلائی۔ جس کے نتیجہ میں پاکستان کے اکثر شہروں میں لاءاینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا ہوئی۔ قادیانی قیادت نے اس آرڈیننس کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیا۔ عدالت نے اپنے فیصلہ میں قرار دیا کہ قادیانیوں پر پابندی بالکل درست ہے۔ اس کے بعد قادیانیوں نے چاروں صوبوں کی ہائی کورٹس میں چیلنج کیا، یہاں پر بھی عدالتوں نے دونوں طرف کے دلائل سننے کے بعد قرار دیا کہ آرڈیننس بالکل قانون کے مطابق ہے۔ قادیانیوں کو آئین میں دی گئی اپنی حیثیت تسلیم کرتے ہوئے شعائر اسلامی استعمال نہیں کرنے چاہئیں۔ آخر میں قادیانیوں نے ان تمام فیصلوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ ہمیں آئین کے مطابق آزادی کا حق حاصل ہے، لیکن ہمیں شعائر اسلامی استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔ لہٰذا عدالت تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298/B اور 298/C کو کالعدم قرار دے۔ سپریم کورٹ کے فل بنچ نے اس کیس کی مفصل سماعت کی۔ دونوں طرف سے دلائل دیے گئے۔ قادیانیوں کی اصل کتابوں سے متنازعہ ترین حوالہ جات پیش کیے گئے۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلہ ظہیر الدین بنام سرکار (1993 SCMR 1718) میں قرار دیا کہ کوئی قادیانی خود کو مسلمان نہیں کہلوا سکتا اور نہ اپنے مذہب ہی کی تبلیغ کر سکتا ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں وہ سزا اور جرمانے کا مستوجب ہوگا۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ جج صاحبان کسی دینی مدرسہ یا اسلامی دارالعلوم کے استاد نہیں تھے بلکہ انگریزی قانون پڑھے ہوئے تھے۔ ان کا کام آئین و قانون کے تحت انصاف مہیا کرنا ہوتا ہے۔ فاضل جج صاحبان کا یہ بھی کہنا تھا کہ قادیانی اسلام کے نام پر لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں جبکہ دھوکہ دینا کسی کا بنیادی حق نہیں ہے اور نہ اس سے کسی کے حقوق یا آزادی ہی سلب ہوتی ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلہ میں لکھا: ” ہر مسلمان کے لیے جس کا ایمان پختہ ہو، لازم ہے کہ رسول اکرم ؐ کے ساتھ اپنے بچوں، خاندان، والدین اور دنیا کی ہر محبوب ترین شے سے بڑھ کر پیار کرے۔” (“صحیح بخاری ” “کتاب الایمان”، “باب حب الرسول من الایمان”) کیا ایسی صورت میں کوئی کسی مسلمان کو مورد الزام ٹھہرا سکتا ہے۔ اگر وہ ایسا دل آزار مواد جیسا کہ مرزا کادیانی نے تخلیق کیا ہے سننے، پڑھنے یا دیکھنے کے بعد اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے؟ “ہمیں اس پس منظر میں قادیانیوں کے صد سالہ جشن کی تقریبات کے موقع پر قادیانیوں کے اعلانیہ رویہ کا تصور کرنا چاہیے اور اس ردعمل کے بارے میں سوچنا چاہیے، جس کا اظہار مسلمانوں کی طرف سے ہو سکتا تھا۔ اس لیے اگر کسی قادیانی کو انتظامیہ کی طرف سے یا قانوناً شعائر اسلام کا اعلانیہ اظہار کرنے یا انہیں پڑھنے کی اجازت دے دی جائے تو یہ اقدام اس کی شکل میں ایک اور “رشدی” (یعنی رسوائے زمانہ گستاخ رسول ملعون سلمان رشدی جس نے شیطانی آیات نامی کتاب میں حضور ﷺ کی شان میں بے حد توہین کی) تخلیق کرنے کے مترادف ہوگا۔ کیا اس صورت میں انتظامیہ اس کی جان، مال اور آزادی کے تحفظ کی ضمانت دے سکتی ہے اور اگر دے سکتی ہے تو کس قیمت پر؟ رد عمل یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی قادیانی سرعام کسی پلے کارڈ، بیج یا پوسٹر پر کلمہ کی نمائش کرتا ہے یا دیوار یا نمائشی دروازوں یا جھنڈیوں پر لکھتا ہے یا دوسرے شعائر اسلامی کا استعمال کرتا یا انہیں پڑھتا ہے تو یہ اعلانیہ رسول اکرم ؐ کے نام نامی کی بے حرمتی اور دوسرے انبیائے کرام کے اسمائے گرامی کی توہین کے ساتھ ساتھ مرزا صاحب کا مرتبہ اونچا کرنے کے مترادف ہے جس سے مسلمانوں کا مشتعل ہونا اور طیش میں آنا ایک فطری بات ہے اور یہ چیز نقض امن عامہ کا موجب بن سکتی ہے، جس کے نتیجہ میں قادیانیوں کے جان و مال کا نقصان ہو سکتا ہے۔ ¢¢¢ “ہم یہ بھی نہیں سمجھتے کہ قادیانیوں کو اپنی شخصیات، مقامات اور معمولات کے لیے نئے خطاب، القاب یا نام وضع کرنے میں کسی دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آخر کار ہندوئوں، عیسائیوں، سکھوں اور دیگر برادریوں نے بھی تو اپنے بزرگوں کے لیے القاب و خطاب بنا رکھے ہیں اور وہ اپنے تہوار امن و امان کا کوئی مسئلہ یا الجھن پیدا کیے بغیر پرُامن طور پر مناتے ہیں۔” (ظہیر الدین بنام سرکار1993 SCMR 1718ء
افسوس ہے کہ قادیانی آئین میں دی گئی اپنی حقیقت کو ماننے سے انکاری ہیں۔ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو بھی تسلیم نہیں کرتے بلکہ الٹا مسلمانوں کا تمسخر اڑاتے ہیں اور انہیں سرکاری مسلمان ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔ یہی وہ آئین اور قانون شکنی ہے جس کی وجہ سے بعض اوقات لاءاینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ بعض اخبارات و رسائل قادیانیوں کی آئین و قانون شکنی کا نوٹس لینے کے بجائے ان کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے