قادیانیوں کا نیا سال اور پھر کچھ جعلی اشتہار
گزشتہ سال لاہور میں قادیانی عبادت گاہوں پر حملہ ہؤا بالکل وییسے جیسے کئی اور جگہ پاکستان میں ہؤا ہے، یعنی کہ مزاروں، مسجدوں وغیرہ پر۔ لعنت ان پر جو ان غیر انسانی حرکتوں کے مرتکب ہوتے ہیں اور ان کو فساد فی الارض کے مطابق سزا ملنی چاہیے۔ مگر قادیانی مرکز سے احکام جاری ہوئے کہ اس کو اپنے اپنے ملک میں پوری طرح سے استعمال کیا جائے۔ چنانچہ کینیڈا میں ملک لال خان اور اسلم داؤد صاحب نے حکومت کو اکسا کر ایک ادارہ کھولا جو مذہبی رواداری پر نظر رکھے گا۔ اور امریکہ میں نسیم مہدی نے اپنی عقل کے مطابق پریس اور حکومت میں اپنی جماعت کی جھوٹی خصوصیات پیش کرنی شروع کیں۔ اور برطانیہ میں رفیق حیات اور نئے بنے ہوئے لارڈ طارق کی کاروباری ذہنیت کے مطابق برطانوی مسلمانوں پر جعلی طور پر قتل کی دھمکیاں اور پمفلٹ کا الزام لگایا گیا تا کہ برطانیہ کی حکومت جو کہ پہلے ہی اپنے مسلمان شہریوں میں تشدد پسندی کے رجحان سے پریشان ہے، مزید پریشانی کا شکار ہو۔
چنانچہ انہوں نے ختمِ نبوت اکیڈمی لندن پر الزامات تراشے اور ایک جعلی قتل کے اشتہار کی شکایت پولیس کے سامنے پیش کی۔ اللہ کا کرنا یہ کہ برطانیہ میں یہ مردود کوشش ناکام رہی، اور قادیانی پیٹتے رہ گئے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کوئی عمل کریں، اور جب انہوں نے انکار کر دیا تو قانون پر نظرِ ثانی کی گیدڑ بھبکیاں لگانے لگے اور سیاست دانوں کے آگے رونا شروع کر دیا۔
فیصل آباد میں جعلی اشتہار
اب کھسیانی بلی کیا کرے کہ نئی ترکیب سوچے۔۲۰۱۰ میں ہی مراد کلاتھ ہاؤس فیصل آباد کے قادیانی مالک کا قتل ہو گیا۔ اب اس کو وجہ بنا کر مارچ ۲۰۱۱ میں ایک جعلی اشتہار اور ایک جعلی خط کر بی بی سی اور ایکسپرس ٹربیون اخبار کو دے دیے۔ یہ جعل سازی انہوں نے خود کی یا کسی سے کروائی یا کسی اور گروپ نے اپنے مفاد کی خاطر کی، اشتہار اور خط دونوں کو عالمی مجلسِ تحفظ ِ ختمِ نبوت کے نام سے جاری کیا گیا ۔ آپ ان کو اوپر دیے گئے روابط سے خود ملاحظہ کر لیں۔ ان خبر رساں اداروں نے بھی تحقیق کے بغیر خبر بنا کر لگا دیا۔ جب ہم نے عالمی مجلس کے حقیقی امیر مولانا اللہ وسایا صاحب سے رجوع کیا تو انہوں نے احمدی آرگ کے نمائندے کو کہا کہ ابھی ان کی نظر سے یہ نہیں گزرا، اور جب ان کو پڑھ کر سنایا گیا تو انہوں نے فرمایا:
‘ یہ جس نے بھی کیا ہے اس نے مجلس کے ساتھ زیادتی کی ہے اور یہ ہمارے خلاف سازش ہے۔ ہمارا بالکل ۔ ہم تو آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر قادیانیت کے متعلق علمی مباحث کرنے والے لوگ ہیں۔ اس طرح قانون کو ہاتھ میں لینا یا بدامنی یا تشدد ہمارے ۔ قطعاً ۔ پروگرام میں شامل نہیں۔’
اشتہار اور خط پر ایک نظر
اشتہار میں عالمی مجلس کے نام کے ساتھ ‘شفاعت محمدی’ لگا کر جعل ساز نے اپنے آپ کو قانون کی گرفت سے بچانے کی کوشش کی ہے، اور ایک شخص بیچارے منیر صاحب کا فون نمبر درج ہے۔ اشتہار میں اردو زبان بھی ناقص ہے اور بعض فقروں کا مطلب ہی نہیں بنتا۔
خط تو بالکل ہی جعلی ہے اور اسلام کا ایسا گھناؤنا منظر پیش کرتا ہے جس کہ کوئی بھی مذہبی تنظیم پیش نہیں کرتی، اور اس میں لشکر جھنگوی، طالبان اور جیش ِ محمد کا مذہبی جماعتوں کے طور پر صرف وہ ذکر کر سکتا ہے جو پاکستان کی سیاست اور قانون کی الف بے بھی نہیں جانتا۔ یعنی کہ اس خط کو مغربی حکومتوں کے لیے بنایا گیا ہے، ورنہ نہ تو یہ مذہبی جماعتیں ہیں اور بیشتر کالعدم ہیں ۔پھر خط اردو میں ہے اور حوالہ نمبر انگریزی میں ہے، حالانکہ پاکستان میں تو انگریزی میں خطوط کا حوالہ بھی اردو میں ہوتا ہے۔ بہت ساری دیگر غلطیوں میں سے سب سے نمایاں یہ ہے کہ Aalmi کو Alami کے طور پر لکھا ہے۔ اور زبان پاکستان میں کوئی بھی مذہبی راہنما استعمال نہیں کر سکتا۔ اور پھر یہ کیسے قاتل جن کو ایک قتل کے بعد سال بعد ہوش آیا ہے، اور پہلے تو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے اور اب دفتری رکھ رکھاؤ سیکھ چکے ہیں۔ پھر جن لوگوں کے نام مبینہ طور پر موجود تھے، ان کی طرف سے پرچہ کی کوئی خبر نہیں۔
سوال یہ ہے کہ اس وقت کیوں؟ایک تو یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ جماعت احمدیہ قادیانیہ نے اپنے اندر ونی دستاویزات کی مسلسل منظرِعام پر آنے سے اتنی تنگ ہے کہ امسال موسمِ بہار میں قتل کی دھمکیوں سے بھرے جعلی پمفلٹاور خطوں کی ایک اور کہانی گھڑ لی ہے۔
دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ مغربی ممالک میں رہنے والے پیروکاروں کا چندہ منہ کو ایسا لگا ہے کہ پاکستان کو بدنام کرنا اور مغربی حکومتوں کی ہمدردیاں لے کر نئے لوگوں کو ڈالروں اور پاؤنڈوں میں چندو دہندگان کی فہرست میں شامل کرنا ہی اب اس جماعت کا مقصد بن چکا ہے۔اور مذہب، علم اور اپنے پیرو کاروں کی فلاح سے بڑھ کر اس مہم پر وقت اور وسائل خرچ کیے جاتے ہیں۔
مگر سب سے قرینِ قیاس یہ ہے کہ فیصل آباد کے کچھ خاندانوں کو برطانیہ منگوانا ہے، اور یہ رفیق حیات، ڈاکٹر منور،
اور عبد السمیع خان کے آپس کی ملی بھگت ہے۔ یہ تین لوگ وہ ہیں جو اس پناہ گزینی کے گورکھ دھندے کے برطانیہ میں بیٹھے نقاش ہیں ، اور پورا نقشہ کھینچ کر پاکستان میں اپنے امورِ عامہ کے شعبہ کو بھیجتے ہیں تا کہ اس پر عمل درآمد ہو اور معین خاندان بیرون ملک روانہ کیے جا سکیں۔
ہم اس بات کو مانتے ہیں کہ پاکستان میں مذہبی توہین کے قوانیں میں وقت کے مطابق جدت کی ضرورت ہے، مگر احمدیوں کے بارے میں قوانین کا فائدہ صرف جماعتِ قادیانیہ کو ہوتا ہے، اور اس مخصوص قانون کے تحت سزاؤں کے اعداد و شمار بھی پیش نہیں کر سکتے۔ چونکہ ان میں سے اکثر صرف پرچہ کٹوائے جاتے ہیں اور آگے کوئی چارہ جوئی نہیں ہوتی۔ اب دیکھتے ہیں کہ فیصل آباد سے برطانیہ آنے کا کس کو اتنا شوق تھا۔ بھلے آئیں، مگر بیچ میں پاکستان، مذہبی تنظیموں اور دینِ اسلام کو روندنے کا کیا مطلب؟ واللہ اعلم۔