ورلڈ ٹریڈ سینٹر ر حملہ کے دس سال بعد
طالبان اورالقائدہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے عزم کا اظہار کرنے والوں نے اپناہی ملک تباہ کر ڈالا۔ دنیا میں سب سے زیادہ قرضے دینے والا ملک سے سے بڑا قرض دار بن گیا ہے۔ امریکہ کی درجہ بندی گر گئی ہے، غربت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، مڈل کلاس ختم ہو رہی ہے اوراس ملک کی اخلاقی اور عالمی برتری خواب بن کر رہ گئی ہے اور تقریباً ہر امریکی حکومت سے نالاں اور مستقبل کے بارے میں اندیشوں کا شکار ہے۔ ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا کہ 11ستمبر 2001کو تیل کی قیمت 28ڈالر فی بیرل تھی جو اب اوسطاً 115ڈالر ہے۔امریکہ کے بجٹ میں خسارے کا تصور نہیں تھا جبکہ اب 1580 ارب ڈالرکا خسارہ ہے۔ اسے 2008سے مالیاتی بحرانوں کا سامنا ہے جس میں اسکے مضبوط ترین بینکوں اور اداروں کو زمین بوس کر دیا ہے جبکہ عالمی درجہ بندی کی سب سے بڑی ایجنسی نے اس کی کریڈٹ ریٹنگ کم کر دی ہے جو اسکے زوال کا ثبوت ہے۔امریکی پالیسی سازوںکے سیاسی نظریات کے سبب اس ملک نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 2000ارب ڈالر جھونک کر بھی کچھ حاصل نہیں کیا اور نہ ہی کوئی سبق سیکھنے کی کوشش کی۔امریکی پالیسی کے نتیجہ میں اسے سالانہ 500ارب ڈالر داخلی سیکورٹی پر بھی خرچ کرنا پڑتے ہیںجو اسکے بجٹ کا 20فیصد ہے۔دفاعی بجٹ میں اضافہ اسکے علاوہ ہے۔واضع رہے کہ گیارہ ستمبر کے حملوں سے امریکہ کے نجی شعبہ کو ایک کھرب 14ارب ڈالر جبکہ صرف ر فضائی کمپنیوں کو 15ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھااور عراق اور افغانستان میں امریکی مہم جوئی کا تخمینہ 4.5 کھرب ڈالر ہے جو امریکہ کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گی۔ ڈاکٹر مغل نے کہا کہ امریکہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ جو دراصل مسلمان ممالک کے توانائی کے وسائل پر قبضہ کی کوشش ہے میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے جبکہ اسامہ بن لادن کا امریکہ کی عالمی معاشی اجارہ دوری کے خاتمہ کا خواب حقیقت بنتا جا رہا ہے۔ اب اس سپر پاور گزارہ چین کے قرضوں پر ہے مگر وہ وقت دور نہیں جب چین اور دیگر ایشیائی ممالک امریکہ کے مالک ہونگے۔
ڈاکٹر مرتضیٰ مغل
صدر پاکستان اکانومی واچ